the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

ملک میں موجودہ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی حالات پر سرسری جائزہ لیا جائے تو ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ مسلمان ہر طرح سے بدحالی کا شکار ہیں اور ان مسلمانوں کو نہ تو ملی قیادت نصیب ہے نہ ہی سیاسی قیادت انکے ساتھ ہے ، جو مسلما ن اپنی قوم کی قیادت کے لئے آگے آتا ہے اس مسلمان کو خود مسلمان ہی آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں یا پھر اس کی قائدانہ صلاحیتوں کو تبا ہ وبرباد کرنے کے لئے منظم سازش رچتے ہیں جس کی وجہ سے آگے آکر کام کرنے والا بھی ستم ظریفی کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ مسلمانوں میں جب قیادت کی بات آتی ہے تو عام طور پر ہم مسلمان قائدکی صلاحیت کو نہیں دیکھتے بلکہ ہماری سوچ اس قدر تنگ و محدود ہوچکی ہے کہ ہم اس کے مسلک ، عقائد اور خاندان پر نظر ڈالتے ہیں ، جب کوئی نوجوان اپنی قوم کی قیادت کے لئے آگے آتا ہے تو اس پر سوال اٹھایا جاتاہے کہ یہ تو فلاں مسلک کا ہے ، یہ فلاں مسجد کو جانے والا ہے ۔ اس کا خاندان تو ایسا ہے ، اسکے بھائی تو ویسے ہیں ، ماضی میں وہ فلاں کردار والا تھا اب سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ہے ، ایسی من گھڑت باتوں کو لے مسلمان اپنے ہی ایک قائدکی کمر تو ڑدیتے ہیں ۔ ہماری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی ہے کہ آخر ہم عام قیادت کی بات کو لے کر یہ سب سوال کیوں اٹھا تے ہیں ، اگر کوئی ہماری رہبری و رہنمائی کے لئے آگے آتاہے تو اسکے ماضی وحال پر سوال کیوں کھڑے کئے جاتے ہیں ۔ ویسے ہم ماضی کا آئینہ دیکھ کر کام کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ہمارے ایمان پر دیکھنا ہوگا کیوں کہ اسلام کے آنے سے پہلے عرب میں زمانٔہ جاہلیت تھا اور اسلام قبول کر نے کے بعد جو صحابی رسول تھے وہ بھی زمانٔہ جاہلیت میں کسی نہ کسی طرح سے غلط تھے لیکن جب وہ دائر ہ اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ دنیا کے مسلمانوں کے لئے مثال بنے اور آج بھی ہم انکے بتائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں ۔ لیکن یہاں جب مسلمان میں لیڈر شپ کی بات آتی ہے تو ہمارے تیور بدل جاتے ہیں اور ہماری سوچوں کو لقوہ ماردیتاہے ۔ ایک مسلمان کو قائد بنانے کے بجائے ہم مسلمان غیروںکی تقلید کرتے ہیں ، غیروں کو اپنا ہمدرد و مسیحا قرار دیتے ہیں ، غیروں کو لیڈر بنا کر خود پر ظلم کررہے ہیں ، جب غیر کی رہنمائی قبول کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کونسے مذہب کا ہے ، وہ کس دین پر ہے ، اسکے خیالات کیا ہیں ، مسلمانوں کے تئیں اسکی ہمدردی کیا ہے اور وہ مسلمانوں کو کس طرح سے قیادت دے سکتا ہے ۔ آج ہمارے درمیان پڑھے لکھے نوجوانوں کا بہت بڑا طبقہ ہے لیکن یہ طبقہ اپنی سوچ



بدلنے سے قاصر ہے ایسے نوجوان طبقے کی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ برسوں سے مسلمانوں کے قائد ین یا لیڈر کے طور پر جو مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں ایسے لیڈروں سے قوم کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے ۔ جو مسلمان لیڈران مسلمانوں کو اپنی میراث سمجھ بیٹھے ہیں ایسے مسلم لیڈروں کو کنا رہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم میں اور آپ میں لیڈر بننے کی صلاحیت ہے ان صلاحیتوں کو ابھار کر سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ ہم میں سے جونوجوان قوم کی قیادت کے لئے آگے آئے اس پست ہمت کرنے کے بجائے اسکا ساتھ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے سامنے مثال ہے دہلی یونیورسٹی کے ایک معمولی اسٹوڈینٹ لیڈر کنیہا کمار کی جو اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے آج نہ صرف ہندوستان میں اپنا مقام بنا چکا ہے بلکہ امریکہ و یوروپ میں بھی اسکا چرچہ چل رہاہے یہ صرف اس وجہ سے کہ اس کے ساتھ عوام کی طاقت کھڑی ہوگئی ہے ، اس کے ساتھ حق پرستوں کی آواز جڑگئی ، اسی کنہیا کمار کے ساتھ ہی شہلا رشید شوریٰ ، عمر خالد جیسے نوجوان بھی ملک کے حالات سے نپٹنے کے لئے آگے آئے ہیں اور ہمیں ایسے نوجوانوں کاساتھ دینا چاہئے ۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے پاس جو مسلم لیڈران ہیں اور انکی میٹھی میٹھی تقریروں اور جذباتی باتوں سے ہم بہک رہے ہیں اور ان کاساتھ دینے کے لئے کمر بستہ ہیں ۔ اگر ہم چاہیں تو اسٹیج کے لیڈروں سے اتار سکتے ہیں اور جو حق کے لئے آواز بلند کریں ان کاساتھ دے سکتے ہیں ۔ ہم میں وہ طاقت ہے کیونکہ ہم عام لوگ ہیں اور عام لوگ جب کسی بات پر اڑ جاتے ہیں تو دنیا کی کسی بھی فوج میں وہ طاقت نہیں رہتی کہ عوام کی طاقت کو ختم کیا جائے ۔ دنیا کا بڑے سے بڑا لیڈر بھی عوام کی وجہ سے ہی اقتدار پر آتاہے ایسے میں ہمارے ملک میںتو جمہوری نظام ہے ، ہمارے پاس بولنے کی آزاد ی ہے ۔ لکھنے کی آزادی ہے ۔ مساوات کا حق ہے ۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے تو ان حقوق کا استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ہمارے درمیان جو قائدانہ خلاء ہے اسے پر کرنے کی ضرورت ہے ۔ پیسوں اورکرسیوں کی لالچ دینے والے ہمارے لیڈر نہیں بن سکتے بلکہ ہمارے حقوق ہمیں دینے والے ہی ہمارے لیڈر بن سکتے ہیں ۔ جذباتی و جو شیلی باتوں سے ہمیں سماجی انصاف نہیں مل سکتابلکہ دستور کے تحت ہمیں حق دینے والے ہمارے لیڈر بن سکتے ہیں ۔ آج جب ہر طرف آزادی کا نعرہ گونج رہاہے تو ہم کیوں غیروں کی لیڈری کی زنجیریں پہنے ہوئے ہیں ۔ اب ہمیں چاہئے آزادی ، ایسی آزادی جو ہندوستانی آئین نے مسلمانوں کو دے رکھی ہے۔ اسکے لیے ہماری سوچ اور قیادت کو تبدیل کرنا ہے اور یہ نوجوان نسل سے ہی ممکن ہے۔ 
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.